Balochistan student success result
Boys
Boys admit in class KG = 115192
Boys passed 5th class = 25962, Boys Dropout = 89230
Boys passed 8th class = 19809, Boys Dropout = 6153
Boys passed 12th class 11233, Boys Dropout = 8576
Boys passed Bachelor = 3224, Boys Dropout = 8009
Result Success:
From 115192 Boys, only 3224 = 3% students got education, 111968 = 97% boys could not get education
Girls
Girls Students admit in class KG = 82966
Girls passed 5th class = 28129, Girls Dropout = 54857
Girls passed 8th class = 10499, Boys Dropout = 17630
Girls passed 12th class 6195, Boys Dropout = 4034
Girls passed Bachelor = 1142, Boys Dropout = 5053
Success Result:
From 82966 Girls, only 1142 = 1% students got education, 81844 = 99% Girls could not get education
Reason:
Poverty
Poverty is big issue in Baluchistan, therefore Students cannot get education.
Access
Students cannot access Schools, because Middle and High Schools are not accessable.
بلکل جناب یہ حقیقت ہےاور اس حقیقت کو ہر باشعور فرد کو تسلیم کرناہوگا۔کہ صرف 3سے 4 فیصد بچے ہی یونیورسٹی تک اپنی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔خاص طور پر سرکاری سکولوں کے طلباء وطالبات ۔جبکہ باقی 97 فیصد تعلیم سے محروم ہو کر مایوسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا سرکار یا ڈیپارٹمنٹ کو اس بات کا پتہ نہیں ؟؟ بات پھر وہی جاکر اٹھک جاتی ہے کہ جی میرا بچہ تو ملک کے اچھے اور اسٹینڈرڈ سکول۔کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔مجھے کیا فکر غریب اور عام لوگوں کے بچے پڑھیں یا نہ۔۔۔ طبقاتی نظام تعلیم نے ہمارے معاشرے کو مکمل طور پر تباہ وبرباد کردیا ہے۔زرا سوچیں کہ 30 سال پہلے پرائیویٹ اداروں اور طبقاتی نظام تعلیم کا رحجان اتنا نہیں تھا اور انہی سرکاری سکولوں سے طلباء وطالبات کامیاب ہو کر آج اچھی زندگی گزار رہےہیں ۔ یقین جانے کہ معیار تعلیم کا دارمدار اسی بات پر ہے اگر آپ تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لیں تو بات پھر اسی بات پر آجاتی ہے کہ مجھے کیا پرواہ میرا بچہ تو۔۔۔۔ اگرسکول کےلیے چت نہیں تو مجھے کیا؟اگرسکول میں پڑھنے کواستادنہیں تو مجھے کیا۔۔اگرسکول میں کمروں کی کمی ہےتو مجھے کیا۔۔۔اگرسکول میں اساتذہ پڑھاتے نہیں صرف حاضری لگانے آتے ہیں تو مجھے کیا۔۔۔۔ اگر نصاب جدید دور کے مطابق نہیں تو مجھے کیا۔۔۔اگر سکولوں میں سہولیات کافقدان ہے تو مجھےکیا۔۔۔اگربورڈ امتحانات کی وجہ سے نقل عام ہورہا ہے تومجھے کیا۔۔۔۔اگر بچہ پڑھنے میں کمزور ہے مگر استاد اپنی ناہلی اور ہیڈ ٹیچر اپنی شان بڑھانے کےلیے ان کو پروموٹ کرکے اگلے کلاس میں داخلہ دےکر اس کی زندگی تباہ کرتے ہیں تو مجھے کیا۔۔۔۔اگر اسکولوں میں اساتذہ بچوں کواپنے ذاتی اور گھر کے کاموں میں مصروف کرتا ہے تو مجھےکیا۔۔۔۔اگر اساتذہ پڑھانے کے بجائے سیاست اور صحافت کو ترجیح دیں تو مجھے کیا۔۔۔۔اگر 100 میں سے صرف 3 فیصد بچے تعلیم حاصل کرپاتے ہیں اور باقی ڈراپ ہوجاتے ہیں تو مجھےکیامیرےبچےتو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Written BY Musatafa Kamal
رٹا اسکولنگ سسٹم
(جہانزیب راضی)
شمالی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ بھی ہے جو رقبے کے لحاظ سے 65 جبکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا میں 114 ویں نمبر پر ہے۔ ملک کی کل آبادی 55 لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن آپ کمال دیکھیں اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ " سپر پاور " امریکا 20ویں نمبر پر ہے۔
2020ء تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جائے گی۔ فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر۔ دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو " پڑھانے" کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں۔
خیر، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے " پڑھائی " ہوتی ہے۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی " اسکلز " بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔ فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئیر بننے سے زیادہ مشکل اور اعزاز کی بات ہے۔ پورے ملک کی یونیورسٹیز کے " ٹاپ ٹین " ماسٹرز کیے ہوئے طالبعلموں کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد رکھا جاتا ہے۔ سات سال سے پہلے بچوں کے لیے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے کہ جس میں ماں باپ بچے کی نیندیں حرام کردیں۔ ان کے کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے پر پابندی لگ جائے، دروازے کھڑکیاں بند کر کے انہیں گھروں میں " نظر بند " کردیا جائے۔ گھر میں آنے والے مہمانوں سے ملنے تک پر پابندی عائد کردی جائے اور گھر میں مارشل لاء اور کرفیو کا سا سماں بندھ جائے۔ پورے ملک میں تمام طلبہ و طالبات کے لیے ایک ہی امتحان ہوتا ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے " میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں "۔
آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ " اخلاقیات " اور " آداب " ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا "جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں "۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔
اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ۔ آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے۔ جاپان میں معاشرتی علوم " پڑھائی" نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔
دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے " پبلشرز " بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں، بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو " کوڑھ مغز " اور " کند ذہن " کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔
آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا، سوائے نقل کرنے اور چھاپنے کے؟ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔ ہم پہلی سے لے کر اور دسویں تک اپنے بچوں کو " سوشل اسٹڈیز " پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ ہم نے کتنا " سوشل " ہونا سیکھا ہے؟ اسکول میں سارا وقت سائنس " رٹتے " گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی " سائنس دان " نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس " سیکھنے " کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی " رٹّا" لگواتے ہیں۔
آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس " پاسنگ مارکس " 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم 2018 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اس " گلے سڑے " اور " بوسیدہ " نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں، بچوں کو " طوطا " بنانے کے بجائے " قابل " بنانے کے بارے میں سوچیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے دنیا چاند پر پہنچ رہی ہے اور ہم ابھی تک " رٹّا سسٹم " کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ ان شاء اللہ اپنے اگلے کالم میں وہ خاکہ پیش کروں گا کہ میرے علم، تجربے اورمشاہدے کے مطابق " جدید تعلیمی نظام " کیسا ہونا چاہیے؟
No comments:
Post a Comment